لومڑی اور کھٹے انگور: محنت، ناکامی اور سبق کا راستہ

لومڑی اور کھٹے انگور

اایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک چالاک لومڑی رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی نئے کارنامے کی تلاش میں رہتی۔

ایک دن، گرم دوپہر میں لومڑی کو بہت زور کی بھوک لگی۔ وہ کھانے کی تلاش میں جنگل میں اِدھر اُدھر گھومنے لگی، یہاں تک کہ اسے کھٹے انگوروں کا ایک باغ نظر آیا۔

کچھ دیر چلنے کے بعد لومڑی کو انگوروں کی ایک بیل نظر آئی جو ایک درخت کی شاخوں سے لٹک رہی تھی۔ ان انگوروں کا رنگ گہرا جامنی تھا اور وہ دیکھنے میں نہایت مزیدار لگ رہے تھے۔

لومڑی کے منہ میں پانی بھر آیا اور اُس نے دل میں کہا، “یہ کھٹے انگور تو بہت مزیدار ہوں گے! اگر میں انہیں حاصل کر لوں تو میری بھوک مٹ جائے گی۔”۔”

لومڑی نے بیل کی طرف دیکھا اور اندازہ لگایا کہ انگور کافی اونچائی پر ہیں۔ لیکن وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھی۔ اس نے بیل کے نیچے کھڑے ہو کر اچھلنا شروع کیا تاکہ انگور تک پہنچ سکے۔

پہلی کوشش میں، وہ انگوروں سے کافی نیچے رہی۔ اُس نے ہمت نہیں ہاری اور ایک قدم پیچھے ہو کر زیادہ زور سے اچھلنے کی کوشش کی۔ دوسری بار بھی وہ ناکام رہی۔ اس نے بار بار کوشش کی لیکن ہر بار انگور اُس کی پہنچ سے دور رہے۔

اب لومڑی تھک چکی تھی، اُس کا سانس پھول گیا تھا، اور اُس کی ٹانگیں بھی درد کرنے لگیں تھیں۔ لیکن انگور پھر بھی اُس کے قریب نہ آ سکے۔

لومڑی کو ایک بار اپنے بچپن کے دن یاد آئے جب اُس نے اپنی دادی سے یہ سنا تھا کہ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اس سوچ نے اُس کے حوصلے کو بڑھایا۔ اُس نے ایک نئی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے زمین پر پڑے ایک پتھر کو اٹھایا اور اُس پر کھڑی ہو کر انگور تک پہنچنے کی کوشش کی۔ لیکن پتھر چھوٹا تھا اور اُس کی مدد نہ کر سکا۔

لومڑی اور کھٹے انگور

اگلی کوشش میں، لومڑی نے ارد گرد مزید پتھر جمع کیے اور اُنہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر ایک ڈھیر بنایا۔ یہ حکمت عملی قدرے کارآمد ثابت ہوئی لیکن پھر بھی انگوروں تک پہنچنے کے لیے ناکافی تھی۔ اب لومڑی کے پاس نہ تو مزید پتھر تھے اور نہ ہی مزید طاقت۔

مایوس ہو کر اُس نے آسمان کی طرف دیکھا اور خود سے کہا، “یہ انگور میرے نصیب میں نہیں ہیں۔ اگر اللہ نے چاہا تو مجھے اور کچھ کھانے کو مل جائے گا۔ لیکن یہ انگور ویسے بھی کھٹے ہوں گے۔” یہ سوچ کر لومڑی نے وہاں سے چلنے کا ارادہ کیا۔

جنگل میں آگے جاتے ہوئے لومڑی کو ایک جھیل نظر آئی جہاں پرندے پانی پی رہے تھے۔ اُس نے سوچا کہ شاید یہ جھیل اُسے کچھ سکون دے سکے۔ جھیل کے کنارے پہنچ کر اُس نے پانی پیا اور وہاں کچھ دیر آرام کیا۔ اُس دوران اُس نے اپنے دل کی تسلی کے لیے سوچا کہ اگر وہ انگور تک پہنچ بھی جاتی تو شاید وہ انگور اُس کی بھوک پوری نہ کر پاتے۔

لومڑی اور کھٹے انگور

اس واقعے کے بعد لومڑی نے ایک سبق سیکھا کہ ہر چیز کو حاصل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار ہمارے نصیب میں وہی چیز آتی ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتی ہے۔ لیکن لومڑی کی فطرت تھی کہ وہ اپنی ناکامی کو نظر انداز کرنے کے لیے بہانے تراشے۔

کچھ دن بعد، لومڑی کو پھر انگوروں کی بیل یاد آئی۔ اُس نے دل میں سوچا کہ اگر اُس وقت وہ مزید محنت کرتی یا کسی اور کی مدد لیتی تو شاید وہ انگور تک پہنچ سکتی تھی۔ یہ سوچ اُس کے دل میں ایک نئی امید کی کرن بن گئی۔

کہانی کا سبق

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب ہم کسی چیز کو حاصل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں، تو اکثر ہم اُس کی اہمیت کم کر دیتے ہیں یا خود کو یہ یقین دلاتے ہیں.

کہ وہ چیز ہمارے لیے مناسب نہیں تھی۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے بہانے تلاش کرتے ہیں۔

لیکن ہمیں ہمت اور محنت جاری رکھنی چاہیے اور ناکامیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔ اگر ہم کسی مقصد کو پانے میں ناکام ہوں تو ہمیں اپنی حکمت عملی بدلنی چاہیے اور دوبارہ کوشش کرنی چاہیے۔

اس کہانی میں “لومڑی اور کھٹے انگور” کا ذکر بار بار اس لیے کیا گیا ہے تاکہ قارئین کو یہ یاد رہے کہ یہ کہانی صرف تفریح کے لیے نہیں بلکہ ایک گہرا سبق دینے کے لیے ہے۔ اگر ہم اپنی کوششوں کو جاری رکھیں اور بہانے بنانا چھوڑ دیں، تو ایک دن ضرور کامیاب ہوں گے۔

One thought on “لومڑی اور کھٹے انگور: محنت، ناکامی اور سبق کا راستہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *